اسکولوں کی قلت سے لے کر خواتین اساتذہ کی کمی تک، پاکستان کی اپنی بیٹیوں کو تعلیم دینے کی جدوجہد

0
129
Education Emergency in Pakistan/Alumni networks education system | پاکستان تعلیم
Image Source: https://east.education

یہ کہنا ہرگز غلط نہ ہو گا کہ پاکستان میں آج بھی لڑکوں کے مقابلے میں تعلیم تک رسائی لڑکیوں کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ لیکن اس پر افسردہ ہونے سے کہیں بہتر یہ ہو گا کہ ہم ان عوامل پر توجہ مرکوز کریں جو قوم کی بیٹیوں کو درپیش اس سنگین مسلئے کو حل کرنے میں مددگار ثابت ہوں۔

رجعت پسند سماجی ریوے، بچپن کی شادیاں، اور کم عمری میں مزدوری صرف کچھ ایسے مسائل ہیں جو پاکستان بھر میں بچییوں کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ملک بھر میں اب بھی ایسیے علاقے موجود ہیں جہاں لڑکیوں کی تعلیم کو ممنوع سمجھا جاتا ہے لیکن بچھلے 20 سالوں میں کی جانے والی اندراج مہموں اور لڑکیوں کے لیے تعلیمی وظیفے کے پروگراموں کی بدولت ملک بھر میں بہتری کا رجحان دیکھائی دینے لگا ہے۔

ایک طرف یقیناً یہ ایک پڑی کامیابی ہے جس کے لیے حکومتی اور غیر سرکاری ادارے تعریف کے مستحق ہیں۔ لیکن دوسری جانب سپلائی سائیڈ کے مسائل پچھلے کچھ سالوں میں لڑکیوں کی تعلیم میں بڑی رکاوٹ بن کر ابھرے ہیں۔

ملک بھر میں ثانوی اسکولوں کی شدید کمی ہے، جس کی وجہ سے خصوصا لڑکیوں کے لیے پرائمری سطح سے آگے اپنی تعلیم جاری رکھنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے شہری علاقوں میں اوسطاً ہر 100 پرائمری اسکولوں کے لیے صرف 48 سیکنڈری اسکول ہیں اور ملک کے دیہی علاقوں میں ہر 100 پرائمری اسکولوں کے لیے محض 22 سیکنڈری اسکول ہیں۔

اسکولوں میں بنیادی سہولیات کے لحاظ سے شہری علاقوں میں 26 فیصد اور دیہی علاقوں میں 37 فیصد  پرائمری اسکول بجلی سے محروم ہیں۔ اسی طرح پاکستان کے شہری علاقوں میں 20 فیصد  اور دیہی پاکستان میں 25 فیصد  اسکول بیت الخلاء کے بغیر ہیں۔ اسکولوں میں بیت الخلا کی عدم موجودگی نوعمر لڑکیوں کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کے نتیجے میں یا تو ماہواری کے دوران لڑکیاں غیر حاضری پر مجبور ہو جاتی ہیں یا تنگ آ کر اسکول ہی چھوڑ دیتی ہیں۔

وبائی مرض کے بعد ہاتھ دھونے کے اسٹیشنوں اور صاف پانی کی شدید ضرورت کے باوجود، شہری علاقوں میں 19.1 فیصد اور دیہی علاقوں کے 25.5 فیصد اسکولوں میں آج بھی یہ سہولت موجود نہیں۔ اس ہی طرح ملک کے دور دراز اضلاع میں اسکولوں کی ایک قابل ذکر تعداد چاردیواریوں کے بغیر ہے۔ یہ عمل والدین کے لیے اپنی سیکنڈری اسکول جانے والی لڑکیوں کو اسکول بھیجنے میں حوصلہ شکنی کا باعث بنتا ہے۔ ثانوی سطح پر خواتین اساتذہ کی کمی کی وجہ سے بھی بہت سی نو عمر لڑکیوں کو اپنی ثانوی تعلیم جاری رکھنے سے روک دیا جاتا ہے۔

لڑکیوں کی تعلیم کے تئیں سماجی رویوں اور طرز عمل کو حل کرنا یقیناً اہم ہے، لیکن اس طرح کی کوششوں کا کوئی نتیجہ نکلنا تب تک مشکل ہے جب تک کہ مندرجہ بالا مسائل کو حل نہ کیا جائے۔ لہٰذا، ریاست کو ایک جامع حکمت عملی وضع کرنے کی فوری ضرورت ہے جس کا مقصد زیادہ سے زیادہ لڑکیوں کو اسکولوں میں لانا اور ان کے وہاں قیام کو یقینی بنانا ہو۔

یہ کہنا ہرگز غلط نہ ہو گا کہ پاکستان میں آج بھی لڑکوں کے مقابلے میں تعلیم تک رسائی لڑکیوں کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ لیکن اس پر افسردہ ہونے سے کہیں بہتر یہ ہو گا کہ ہم ان عوامل پر توجہ مرکوز کریں جو قوم کی بیٹیوں کو درپیش اس سنگین مسلئے کو حل کرنے میں مددگار ثابت ہوں۔

رجعت پسند سماجی ریوے، بچپن کی شادیاں، اور کم عمری میں مزدوری صرف کچھ ایسے مسائل ہیں جو پاکستان بھر میں بچییوں کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ملک بھر میں اب بھی ایسیے علاقے موجود ہیں جہاں لڑکیوں کی تعلیم کو ممنوع سمجھا جاتا ہے لیکن بچھلے 20 سالوں میں کی جانے والی اندراج مہموں اور لڑکیوں کے لیے تعلیمی وظیفے کے پروگراموں کی بدولت ملک بھر میں بہتری کا رجحان دیکھائی دینے لگا ہے۔

ایک طرف یقیناً یہ ایک پڑی کامیابی ہے جس کے لیے حکومتی اور غیر سرکاری ادارے تعریف کے مستحق ہیں۔ لیکن دوسری جانب سپلائی سائیڈ کے مسائل پچھلے کچھ سالوں میں لڑکیوں کی تعلیم میں بڑی رکاوٹ بن کر ابھرے ہیں۔

ملک بھر میں ثانوی اسکولوں کی شدید کمی ہے، جس کی وجہ سے خصوصا لڑکیوں کے لیے پرائمری سطح سے آگے اپنی تعلیم جاری رکھنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے شہری علاقوں میں اوسطاً ہر 100 پرائمری اسکولوں کے لیے صرف 48 سیکنڈری اسکول ہیں اور ملک کے دیہی علاقوں میں ہر 100 پرائمری اسکولوں کے لیے محض 22 سیکنڈری اسکول ہیں۔

پڑھیں: کویڈ۔۱۹اور پاکستان کا بڑھتا ہوا تعلیمی بحران

اسکولوں میں بنیادی سہولیات کے لحاظ سے شہری علاقوں میں 26 فیصد اور دیہی علاقوں میں 37 فیصد  پرائمری اسکول بجلی سے محروم ہیں۔ اسی طرح پاکستان کے شہری علاقوں میں 20 فیصد  اور دیہی پاکستان میں 25 فیصد  اسکول بیت الخلاء کے بغیر ہیں۔ اسکولوں میں بیت الخلا کی عدم موجودگی نوعمر لڑکیوں کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کے نتیجے میں یا تو ماہواری کے دوران لڑکیاں غیر حاضری پر مجبور ہو جاتی ہیں یا تنگ آ کر اسکول ہی چھوڑ دیتی ہیں۔

وبائی مرض کے بعد ہاتھ دھونے کے اسٹیشنوں اور صاف پانی کی شدید ضرورت کے باوجود، شہری علاقوں میں 19.1 فیصد اور دیہی علاقوں کے 25.5 فیصد اسکولوں میں آج بھی یہ سہولت موجود نہیں۔ اس ہی طرح ملک کے دور دراز اضلاع میں اسکولوں کی ایک قابل ذکر تعداد چاردیواریوں کے بغیر ہے۔ یہ عمل والدین کے لیے اپنی سیکنڈری اسکول جانے والی لڑکیوں کو اسکول بھیجنے میں حوصلہ شکنی کا باعث بنتا ہے۔ ثانوی سطح پر خواتین اساتذہ کی کمی کی وجہ سے بھی بہت سی نو عمر لڑکیوں کو اپنی ثانوی تعلیم جاری رکھنے سے روک دیا جاتا ہے۔

لڑکیوں کی تعلیم کے تئیں سماجی رویوں اور طرز عمل کو حل کرنا یقیناً اہم ہے، لیکن اس طرح کی کوششوں کا کوئی نتیجہ نکلنا تب تک مشکل ہے جب تک کہ مندرجہ بالا مسائل کو حل نہ کیا جائے۔ لہذا، ریاست کو ایک جامع حکمت عملی وضع کرنے کی فوری ضرورت ہے جس کا مقصد ریاستی سطح پر مسائل کو حل کرنا ہو تاکہ زیادہ سے زیادہ لڑکیوں کو اسکولوں میں لایا جا سکے۔

یہ مضمون انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی کی ٹیچ مہم کا حصہ ہے۔ مزید معلومات کے لیے براہ کرم ان کے فیس بک، یوٹیوب، ٹویٹر اور انسٹاگرام ہینڈلز ملاحظہ کریں۔