“کورونا وائرس کی عالمی وباء سے پہلے ہی پاکستان میں پونے تین کروڑ بچے اور بچییاں اسکولوں سے باہر تھے۔ وباء سے پیدا ہونے والی ہنگامی صورتحال کے بعد اس تعداد میں کم سے کم دس لاکھ مزید بچوں کا اضافہ ہونے کا اندیشہ ہے۔” ان خیالات کا اظہار پاکستان یوتھ چینج ایڈوکییٹس کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر، اریبہ شاہد نے ادارے کے زیر اہتمام ایک ویبینار میں کیا۔
تعلیمی کارکنونوں اور سینئرصحافیوں نے ملک بھر سے اس ویبینار میں شرکت کی اور پاکستان میں موجود تعلیمی ہحران میں بہتری لانے کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔
ویبینار کے دوران ماہر معاشیات عاصم بشیر نے شرکاء کے ساتھ حال ہی میں شائع ہونے والےاپنے وائٹ پیپر
“Public Investment in Education: COVID-19 & Other Past Emergencies,”
کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ تعلیمی بجٹس میں کٹوتی پاکستان میں معمول کی بات ہے اور اس کٹوتی کا کورونا وائرس جیسے ہنگامی حالات سے کچھ بہت لینا دینا نہیں ہے۔ “ہم نے اس وائٹ پیپرکے لیے پچھلی دو دہائیوں میں ہنگامی اور غیر ہنگامی سالوں کا موازنہ کیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ دونوں قسم کے سالوں میں تعلیمی ترقیاتی بجٹس کو متاواتر کٹوتی کا سامنا کرنا پڑا ۔”
صحافی ضرار کھوڑو نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ، “اگرچہ پاکستان بہت سارے مسائل سے دو چار ہے اور آبادی میں اضافے کے ساتھ یہ مسائل مزید بڑھیں گے ، تاہم اہم بات یہ ہے کہ ہم ہمت نہ ہار دیں اور حکومتی سطح پر اصلاحی عمل کو فوری طور پر شروع کیا جائے۔”
بریٹش پاکستانی، جارج فلٹن کے مطابق، تعلیم کی اہمیت کو معاش، سیکیوریٹی اور کلیمیٹ چینج جیسے مسائل کے پس منظر میں بیان کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام اور سیاستدان دونوں اسکی موروثی اہمیت کو بہتر طریقے سے سمجھ پائیں۔
سماجی مبصرفصی زکا نے اسکولوں میں معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے مزید سرمایہ کاری پر زور دیا۔ یہ ویبینار پاکستان یوتھ چینج ایڈوکییٹس کی حال ہی میں شروع کردہ ایک سماجی مہم کا حصہ تھا۔ اس مہم کا مقصد پاکستان میں تعلیم میں حکومتی سرمایہ کاری میں بہتری لانا ہے۔
:آپ یہاں پورا سیشن دیکھ سکتے ہیں