بلوچستان میں خواتین اساتذہ کا بحران فوری ازالے کا طلب گار

0
91
بلوچستان خواتین اساتذہ

تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ خواتین اساتذہ کی موجودگی، ثانوی سطح پر لڑکیوں کے اندراج کو بڑھانے کے لیے انتہائی اہم ہے۔ بین الاقوامی ریسکیو کمیٹی کی جانب سے حال ہی میں شائع ہونے والے ایک وائٹ پیپر کے مطابق مقامی لوگوں کا ماننا ہے کہ خواتین اساتذہ کا اپنے مرد ہم منصبوں کے مقابلے میں ڈیوٹی سے غیر حاضر رہنے کا امکان کم ہوتا ہے، اور ان میں احساسِ ذمہ داری زیادہ پایا جاتا ہے۔

تاہم دیہی علاقوں میں اہل خواتین اساتذہ کی کمی ایک مسلسل بڑھتا ہوا مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ بلوچستان میں ثانوی سطح پر زیادہ دیکھا جاتا ہے۔

خواتین اساتذہ کی کمی کا لڑکیوں کے لیے تعلیمی مواقعوں کی کمی سے گہرا تعلق ہے۔ چونکہ دیہی اور دور دراز علاقوں میں لڑکیوں کی شرحِ تعلیم کم ہے، اس ہی لیے ان علاقوں میں اکثر اعلی تعلیم یافتہ خواتین اساتذہ کا بھی فقدان رہتا ہے۔

دوسری جانب سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کی بھرتی کی سخت شرائط کی وجہ سے بھی بلوچستان میں خواتین اساتذہ کے بحران میں اضافہ ہوا ہے۔ بلوچستان میں بھرتی کیے گئے اساتذہ کے لیے نیشنل ٹیسٹنگ سروس (این۔ٹی۔ایس) کے مرتب کردہ ٹیسٹ کو پاس کرنا لازمی ہے۔ چونکہ، صوبے کے اکثر دیہی علاقوں میں ایسی خواتین موجود ہی نہیں جنہوں نے کم از کم بی۔اے تک تعلیم حاصل کی ہو، اس وجہ سے مقامی خواتین کی بطور اسکول ٹیچر تقرری نہیں ہو پاتی۔

مزید: قلیل مدت میں بلوچستان میں معیاری تعلیم کو یقینی بنانے کے لیے چار اہم حل

اس صورتحال کے پیشِ نظر، بلوچستان میں تدریسی عہدوں کے لیے اہلیت کے معیار کو عارضی طور پر نرم کیا جانا چاہیے۔ خواتین گریجویٹس جن کے پاس بیچلر کی ڈگری ہے لیکن ان کے نمبر کم ہوں انہیں بھی درخواست دینے کی اجازت ہونی چاہیے۔ اسی طرح بلوچستان کے لیے، این۔ٹی۔ایس کے مرتب کردہ ٹیسٹ پر بھی نظر ثانی کی جانی چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ خواتین امیدوار تدریسی اسامیوں کے لیے اہل ہو پائیں۔ مندرجہ بالا معیار کی بنیاد پر بھرتی ہونے والی اساتذہ کے لیے مسلسل پیشہ ورانہ تربیت اور اعلیٰ تعلیم کے مواقعوں کی فراہمی ایک اہم حکمت عملی ثابت ہوگی۔ اس طرح خواتین اساتذہ کی کمی کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی یقینی بنایا جا سکے گا کہ تعلیم کے معیار پر کوئی سمجھوتہ نہ ہو۔

مزید: اسکولوں کی قلت سے لے کر خواتین اساتذہ کی کمی تک، پاکستان کی اپنی بیٹیوں کو تعلیم دینے کی جدوجہد

 اس مسئلے کو مختصر مدت میں حل کرنے، اور خواتین اساتذہ کو دور دراز اور دیہی علاقوں میں بطور استاد اپنے فرائض سر انجام دینے پر آمادہ کرنے کے لیے، صوبائی حکومت کو ایک مراعاتی پیکج تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ اس پیکج میں مناسب مالی فوائد، رہائشی سہولیات، اور شہری علاقوں میں اگلی پوسٹنگ کے وعدے جیسی مراعات شامل کی جا سکتی ہیں۔

ایک اور قلیل مددتی حل اسکول کلسٹر پر مبنی ایسی عارضی اساتذہ کی بھرتی ہو سکتا ہے جو دور دراز علاقوں میں خدمات سر انجام دینے پر راضی ہوں۔ کلسٹر فنڈز ہر کلسٹر میں اسکولوں کی طرف سے شناخت کردہ ضروریات کی بنیاد پر عارضی اساتذہ کی خدمات حاصل کرنے کے لیے استعمال کیے جاسکتے ہیں جب تک کہ 18 ماہ طویل رسمی بھرتی کا عمل مکمل نہ ہوجائے۔ طویل المدت میں، مقامی طور پر بھرتی کی گئی اساتذہ جن کے پاس مطلوبہ اہلیت نہ ہو، انہیں صوبائی حکومت کی جانب سے پیشہ ورانہ تربیت اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم کئے جانے چاہئیے۔

یہ مضمون انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی کی ٹیچ مہم کا حصہ ہے۔ مزید معلومات کے لیے براہ کرم ان کے فیس بک، یوٹیوب، ٹویٹر اور انسٹاگرام ہینڈلز ملاحظہ کریں۔