اسکول کی عمارتیں، کلاس روم، چار دیواری، بیت الخلا، پینے کا صاف پانی، اور سائنس کی لیبارٹریوں کی فراہمی چند ایسی سہولیات ہیں جو ایک تعلیمی ادارے کے ماحول کو متاثر بناتی ہیں۔ اس بات سے انکار نہیں کہ اسکولوں میں سہولیات کی فراہمی لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لیے یکساں اہم ہیں لیکن بعض سہولیات کی موجودگی لڑکیوں کےاندراج اور تکمیلِ تعلیم کے لیے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔
مثال کے طور پر، اسکولوں میں داخلہ لینے والی نوعمر لڑکیوں کی حفاظت والدین کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔ اس وجہ سے لڑکیوں کے اسکولوں میں چار دیواری کی عدم موجودگی، خاص طور پر ثانوی سطح پر، اکثر انکے اسکول چھوڑنے کی ایک بڑی وجہ بن جاتی ہے۔ بلوچستان کے زیادہ تر دیہی علاقوں میں خواتین اور نوعمر لڑکیوں کے لیے پردہ روزمرہ کی زندگی کا ایک لازمی پہلو ہے، اور اس لیے لڑکیوں کے لیے تعلیمی سہولیات کی منصوبہ بندی کرتے وقت اسے مدنظر رکھنا انتہائی اہم ہے۔
اسی طرح، لڑکیوں کے بعد از پرائمری اسکولوں میں غیر فعال بیت الخلاء ایک بڑا مسئلہ ہیں۔ سرکاری اسکولوں میں جہاں کوئی فعال بیت الخلاء دستیاب نہیں ہوتا، طلباء کو پڑوس کے گھروں میں بیت الخلاء استعمال کرنے جانا پڑتا ہے، جو کہ زیادہ تر والدین کے لیے تشویش کا باعث بنتا ہے۔ اس لیے لڑکیوں کے اسکولوں میں بہتے پانی کے ساتھ فعال بیت الخلاء انتہائی اہم ہیں۔ اسکولوں میں جہاں بیت الخلاء موجود نہیں ہوتے، وہاں پڑھنے والی لڑکیاں اکثر خاص ایام کے دوران چھٹی کر لیتی ہیں جس کے نتیجے میں انکا سیکھنے کا عمل مسلسل متاثر ہوتا ہے۔
مزید: بلوچستان میں خواتین اساتذہ کا بحران فوری ازالے کا طلب گار
اس ہی مسئلے کا دوسرا پہلو سروسز یا خدمات کے بنیادی ڈھانچے میں پائے جانے والے جھول ہیں جو ثانوی سطح پر لڑکیوں کے اندراج اور تکمیلِ تعلیم کو متاثر کرتے ہیں۔ جیسے کہ خواتین کے تدریسی اور انتظامی عملے کی کمی، اور سائنس اور ریاضی میں مضمون کی ماہر اساتذہ کی غیر موجودگی۔
ان مسائل سے نمٹنے کے لیے پہلا قدم بلوچستان بھر میں اسکولوں کی سطح پر صنفی بنیادوں پر بجٹ کی تشکیل ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ، لڑکیوں کے لیے پرائمری کے بعد کے اسکولوں میں بجٹ کا ایک حصہ ایسا ہونا چاہیے جو ہیڈ ٹیچر کی صوابدید پر ہو تاکہ اسے شناخت کردہ سہولیات کی فورا فراہمی کے لیے استعمال کیا جا سکے۔
خواتین اساتذہ کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ایسی خواتین گریجویٹس، جو کسی بھی شعبے میں بیچلر مکمل کر چکی ہوں، کو لڑکیوں کے سرکاری اسکولوں میں عارضی طور پر بھرتی کیا جانا چاہیے۔
اسی طرح، پرائمری اور مڈل اسکول کی سطح پر ہر جماعت کے لیے مخصوص نصاب اور نصاب میں مہارت رکھنے والے اساتذہ تیار کرنے پر توجہ دی جانی چاہیے تاکہ ان جماعتوں کے لیے اہل اساتذہ کا ایک مضبوط گروہ تشکیل دیا جا سکے۔
دیہی اور دور دراز علاقوں میں خدمات انجام دینے کے لیے شہری مقامات سے خواتین اساتذہ کو اضافی مراعات فراہم کرنے کے لیے طویل المدتی انتظامات کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اس سے خواتین تدریسی عملے کی کمی کے ساتھ ساتھ مضامین کے ماہرین کی عدم موجودگی کو پورا کرنے میں مدد ملے گی۔
ان حکمت عملیوں کو اپنانا بلوچستان بھر میں لڑکیوں کے اسکولوں میں اندراج اور تکمیلِ کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے انتہائی اہم ہے۔
یہ مضمون انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی کی ٹیچ مہم کا حصہ ہے۔ مزید معلومات کے لیے براہ کرم ان کے فیس بک، یوٹیوب، ٹویٹر اور انسٹاگرام ہینڈلز ملاحظہ کریں۔